وسیلہ کا مطلب ہے کسی نیک عمل یا صالح شخصیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنا۔ یہ اسلامی عقائد میں ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ اس مضمون میں ہم جائزہ لیں گے کہ کیا وسیلہ جائز ہے اور اس کا شرعی ثبوت کہاں سے ملتا ہے۔
وسیلہ کا ثبوت قرآن مجید سے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ”
(سورۂ مائدہ: 35)
ترجمہ: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔”
اس آیتِ مبارکہ میں واضح طور پر وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ کے قرب کے لیے کسی نیک عمل یا صالح ہستی کا وسیلہ اختیار کرے۔
وسیلہ کا ثبوت حدیث مبارکہ سے
نبی اکرم ﷺ نے وسیلہ اختیار کرنے کی عملی تعلیم دی ہے۔ ایک مشہور حدیث میں حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی بینائی کی دعا کی درخواست کی۔ نبی ﷺ نے اسے یہ دعا سکھائی:
“اے اللہ! میں تیرے نبی محمد ﷺ کو، جو رحمت کے نبی ہیں، وسیلہ بناتا ہوں۔”
(جامع ترمذی، حدیث: 3578)
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ سے دعا کرتے وقت اپنی ذات کو وسیلہ بنانے کی اجازت دی۔
کیا وسیلہ جائز ہے؟
علمائے کرام کے مطابق، وسیلہ جائز اور شرعی عمل ہے، بشرطیکہ یہ عقیدہ ہو کہ حقیقی حاجت روا اور مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وسیلہ صرف دعا کی قبولیت کے لیے ایک ذریعہ ہے۔
وسیلہ کی اقسام
- نیک اعمال کا وسیلہ: جیسے نماز، روزہ یا صدقہ کے ذریعے دعا مانگنا۔
- صالحین کا وسیلہ: اللہ کے نیک بندوں جیسے انبیاء اور اولیاء کے وسیلے سے دعا کرنا۔
- اللہ کے اسماء و صفات کا وسیلہ: اللہ کے خوبصورت ناموں اور صفات کو دعا میں وسیلہ بنانا۔
وسیلہ اختیار کرنے کی اہمیت
وسیلہ اختیار کرنے سے انسان کی دعاؤں کی قبولیت میں برکت ہوتی ہے۔ یہ انسان کے عاجزی کے اظہار اور اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔
نتیجہ
وسیلہ کا ثبوت قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے، اور یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز ہے۔ یہ عمل انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور اس کی دعاؤں میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ اس لیے وسیلہ اختیار کرتے ہوئے اللہ سے حاجت طلب کرنا شرعاً مستحسن ہے۔